Orhan

Add To collaction

اممیدنو کا روشن سوےر

"مجھے آپ کے خلوص پر کوئی شک نہیں رہا مگر ہماری کچھ اسلامی حدود اور معاشرتی اقدار ہے جس کی پاسداری ایک لڑکی ہونے کی حیثیت

سے میری ذمہ داری ہے لہذا آپ سے دوستی میں افورڈ نہیں کر سکتی البتہ ہم کولیگز ہیں اس لحاظ سے آپ میرے لئے قابل احترام ہیں، آج بھی مجبورا آپ کے ساتھ آنا پڑا آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے گھر تک ڈراپ کیا، میں آپ کو ایک کپ چائے کی آفر ضرور کرتی مگر رات کے اس پہر میں یہ افورڈ نہیں کرسکتی میرا یہ اخلاقی رویہ میرے لئے باعث زلت بھی بن سکتا ہے امید ہے آپ میری مجبوری سمجھتے ہوئے میری بات کا برا نہیں مانیں گے اللہ حافظ ۔" یہ کہہ کر اس نے اپنے سائیڈ کا دروازہ کھولا اورسامنے موجود اپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی ۔ شاہ بخت اسے اس وقت تک جاتا دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی، اس کی اس احتیاط پسندی اور ریزرو رہنے کی عادت نے اس کے دل میں محبت کے ساتھ احترام و تکریم کا جذبہ بھی پیدا کر دیا تھا، وہ کوئی شوخ سی دھن بجاتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاه بخت کے دل میں نور کے لئے پھوٹنے والی محبت کی کونپل تناور درخت بن چکی تھی، اب وہ خود بھی محتاط رہتا تھا کہ کہیں اس کی کوئی بات نور کو ناگوار نہ گزرے، نور بھی اس کے جذبے سے بے خبر نہیں رہی تھی اس کے دل میں بھی شاہ بخت کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا، اب وہ کبھی کبھار شاه بخت کے ساتھ ہلکے پھلکے موضوع پر بات کر لیتی تھی شاه بخت کے لئے اس کا اتنی بی التفات ہی کافی تھی۔

"شاه خاور یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ تم نے آم کے باغ والی زمین بیچ دی ہے ارے بابا، ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ اپنے آبا و اجداد کی آبائی زمین مجھ سے پوچھے بغیر بیچ دی۔‘‘ شاہ عالم بہت غصے میں تھے جب سے انہیں اپنے مشیر خاص کے ذریے زمینوں کی فروخت کا پتہ لگا تھا۔

"بابا سائیں ضرورت تھی ناں، جب ہی بیچی ہے ویسے بھی وہ زمین میری ملکیت تھی تو پھر اجازت کی کیا ضرورت؟"

"اوہ تواب تم اتنے با اختیار ہو گئے ہو کہ مجھ سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا بھلا ایسی کیا آفت پڑی تھی مجھے بھی تو پتہ چلے ۔‘‘ شاه عالم نے طیش میں آتے ہوۓ پوچھا۔

"بابا بات کھل ہی گئی ہے تو سن لیں میں نے شہر میں نکاح کرلیا ہے اور یہ زمین بیچ کر میں نے رقم اپنی بیوی کے نام ٹرانسفر کر دی ہے۔‘‘ شاه خاور نے خبر نہیں بلکہ بم بلاسٹ کیا تھا، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، مہرو جو پہلے ہی ناپسندیدہ تھی مگر اب اسے دوسری شادی کے بعد تو اس حویلی میں بھی کوئی جائے پناہ نظر نہیں آ رہا تھا غریب والدین اپنی بیاہی بیٹی کو دوبارہ گھر بٹھا نہیں سکتے تھے، مہرو کو اپنی مجبوری و بدحالی پر رونا آ گیا۔

" اوہ یعنی شاہ بخت نے تمہارے بارے میں جو انکشافات کیے وہ درست تھے غصے میں اس کو ہی غلط سمجھتا رہا اپنے ہیرے جیسے لائق بیٹے کو بے اختیار کر دیا نجانے وہ کہاں در بدر ہو رہا ہو گا۔ میں کہتا ہوں ابھی اور اسی وقت حویلی سے نکل جاؤ مجھے تم جیسے ناخلف اولاد کی کوئی ضرورت نہیں ۔"

   1
0 Comments